Issue no 27

Al Quran

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطاء فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتےہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔‘‘ (سورہ آل عمران ۔ 169۔171 )


Al Hadith

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔’’شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے ۔‘‘ ( مسنداحمد )

 


 

 

Harf e awwal

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس وقت میں رنج و غم کی فضا میں گفتگو کر رہا ہوں۔ ایک ایسے موقع پر جبکہ ہمارے بہت ہی عزیز اور پیارے دوست، جن کو آج مرحوم اور رحمہ اللہ کہتے ہوئےکلیجہ  منہ کو آرہا ہے،  وہ طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون!

 اس دنیامیں ہر ایک کو جانا ہے۔ کوئی بھی موت سے مستثناء نہیں۔ بعض لوگوں کا جانا ایسا ہوتا ہے کہ وہ  لوگوں کے دلوں گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ اللہ نے میرے  عزیز جنید جمشید کو بعض ایسی صفات سے نوازا تھا جو اس دور میں کمیاب و نایا ب ہیں۔ وہ اپنے اخلاق کے اعتبار سے، اپنے تدین کے اعبتار سے اورحسن سلوک کے اعتبار سے نئی نسل کے لیے روشن مثال تھے۔

سب لوگ جانتے ہیں وہ اپنی  ابتدائی زندگی  میں سنگر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ اس حیثیت سے انہوں نے جتنی رونقیں اور عزتیں کمائیں،   وہ بہت کم لوگوں کے  حصے میں آتی ہیں۔ ایسی حالت میں جب ساری دنیا ان کے گن گارہی تھی اور دولت ان کے قدموں میں نچھاور تھی، ان کو اللہ نے آخرت  کی فکر عطافرمائی۔ انہوں نے ظاہری دنیا کے مفادات کو پامال کر کے خالص اللہ کے لیے دنیوی زندگی کو خیر باد کہا۔ یہ عظیم قربانی اللہ کے لیے دی۔ پھر کھلی آنکھوں اللہ کے اس  وعدے کا مشاہدہ کہ جو اللہ کےڈر سے غلط کام چھوڑتا ہے اسکو اللہ ایسے سبب سے رزق عطاکرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔

Harf e awwal

7دسمبر کی شام قیامت کی تھی۔پی آئی اے کاچترال سے اسلام آباد جانے والا طیارہ حویلیاں کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔عملے سمیت ۴۷افراد آناً فاناً جاں بحق ہوگئے۔کتنے گھروں ،کتنے محلوں اورکتنے شہروں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔بچے اپنے ماں باپ کااوروالدین اپنے بچوں کاانتظار کرتے رہ گئے۔

یہ قومی سانحہ تھا جس پر جس قدر افسوس کیاجائے کم ہے۔ کہا جارہاہے کہ تباہ شدہ طیارہ پرواز کے لیے ناموزوں تھا،اس کے باوجود اس کی پرواز کارِ سک لیا جارہاتھا۔پی آئے اے کاعملہ حادثے کی ذمہ داری پائلٹ کی غلطی پر ڈال رہاہے۔تحقیقات ہورہی ہیں اورہوتی رہیں گی مگربہرکیف جانے والے تواب واپس نہیں آسکتے ۔ان کی یادیں ان کے پیاروں کے دلوں میں ایک ٹیس بن کراٹھتی رہیں گی۔ اسی بدقسمت طیارے میں خوش قسمت جنید جمشید اپنی اہلیہ سمیت سوار تھے۔ وہ چترال میں دعوت وتبلیغ کے لیے گئے تھے۔ وہاں ان کے بیانات بھی ہوئے جن میں وہ موت کی تیاری کی دعوت دیتے رہے۔ واپسی پر وہ خود اسلام آباد کی جگہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ جنید جمشید اہلِ پاکستان کے چہیتے تھے۔ کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھے۔ ان کی آواز جو ایک مدت تک دلوں میں عشقِ مجازی کادردجگاتی رہی، تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے کے بعد،دلوں کے روگ دور کرنے لگی ،عشقِ مجازی کے مریضوں کو عشقِ حقیقی کاپیغام دیتی رہی۔

Harf e awwal

 سوال: سب سے پہلے آپ اپنے بارے میں بتائیں۔

ہمایوں جمشیدصاحب:السلام علیکم! میرا نام ہمایو ں جمشید ہے۔ میری کراچی کی پیدائش ہے میرے والد صاحب ائیر فورس میں ہوتے تھے۔ میرے والد صاحب کی پی اے ایف بیس میں پوسٹنگ تھی۔ میرے والد صاحب ائیر فورس میں ایک فائٹر پائلٹ تھے۔ 65ء کی جنگ کے بعد میری پیدائش ہوئی کراچی میں، اور میں نے ابتدائی تعلیم کراچی میں ہی   حاصل کی۔ پھر میں نے پشاور میں بھی تھوڑا عرصہ پڑھا۔میرے والد کی وہاں پوسٹنگ تھی ۔پھر میں نے ایبٹ آباد  میں بھی  چار پانچ سال تعلیم حاصل کی۔ پھر میں گورنمنٹ کالج لاہور چلا گیا ۔ وہاں سے گریجویشن کی۔اور وہاں سے میں نے  ماسٹرز کیا انٹرنیشنل رلیشن شپ میں   اور اس کے بعد میں تعلیم کے لئے یوکے چلا گیا۔  جہاں سے میں نے ماسٹرز ان بزنس ایڈمنسٹریشن بھی کیا۔ اس کے بعد  میں نے بینکنگ کیرئیر  کا آغاز کیا  اور انگلینڈ میں پہلےانویسٹمنٹ  بینک میں کام شروع کیا۔

Harf e awwal

’’قال اللہ تعالی کل من علیھا فان ویبقی ذوالجلال  والاکرام ۔ وقال تعالی کل نفس ذائقہ  الموت۔‘‘

میں اس وقت بہت کرب سے گزررہاہوں۔ بڑے صدمہ کی کیفیت ہےکہ ایک بہت بہترین ساتھی ، میرا دوست لاکھوں  کروڑوں  دلوں کی دھڑکن  ،جس نے ایک اللہ کے رسول کی نعتیں  پڑھ کر دلوں کو گرمایا  ۔  ساری دنیا  میں  تبلیغی  نسبت کے ساتھ اللہ کے کام کو پھلایا ، آج اچانک وہ ہم سے بچھڑگیا۔جانا تو طے ہے ۔دنیا ایک دھوکا ہے ۔جانا ایک حقیقت  ہے۔زندگی  ایک سراب ہے ۔ پانی کا ایک بلبلہ ہے۔موت ایک اٹل ہے۔لیکن ایسے اچانک کوئی اپنا قریبی بچھڑ جائیں  تو سارا وجود لرز اٹھتا ہے۔ یوں جیسے  زندگی  ایک بہت بڑا جھٹکا  کھا کر لڑکھڑائی  ہو۔ اللہ سنبھال تو دیتا ہے ۔ جنید جمشید  ایک بہترین  انسان تھا ۔میری اسکی رفاقت 20 سال کی ہے۔میں نے ایسے اخلاق والے بہت کم دیکھے۔آج سےبیس  سال پہلے میرے سامنے ٹی وی  چل رہا تھا۔

Harf e awwal

’’پتہ نہیں کیوں میرے دل میں آتی ہے کہ آج میں آپ لوگوں کو اپنی کارگزاری سناؤں کہ اللہ نے موسیقی سے اس طرف لانے کا انتظام کیسے کیا۔ آپ یقین کریں گے کہ یہی دن تھے۔ بالکل جولائی کی شدید  گرمیاں تھیں۔ پنجاب میں تو یہ موسم قدرے بہتر ہو جاتا ہے۔کراچی میں جولائی میں حبس بڑھ جاتا ہے اور بہت بڑھ جاتا ہے۔ یہ یہی جولائی کے دن تھے۔میں گاڑی میں بیٹھا تھا ۔ شیشہ چڑھا ہوا تھا اور میں جا رہا تھاکہ میں نے بائیں طرف سے جماعت کو گزرتے ہوئے دیکھا۔

مجھے پتہ تھا کہ یہ کچھ ایسی کوئی جماعت ہے جو لوگوں کو مسجد کی طرف لے جاتی ہے اور تنگ ونگ کرتی ہے ۔ لوگوں کو گھروں سے نکال دیتی ہے۔ تو لوگ اس جماعت سے بھاگتے پھرتے ہیں۔ تو میں کچھ ایسا سنا ہوا تھا۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ دیکھو تم تو آرام سے گاڑی میں بیٹھے ہو اور یہ دیکھو یہ بے چارے لوگ اللہ کی طرف بلار ہے ہیں اور ان کے کپڑے پسینے میں بالکل بھیگے ہوئے تھے۔ تو تم ان کے بارے میں غلط سوچ رہے ہو تو ایسا نہ ہو کہ آگے جاکر تمھاری گاڑی کہیں لگ جائے۔ اپنی گاڑی کو بچانے کے چکر میں میں نے یو ٹرن لیا اور واپس لا کر ان کے قریب گاڑی روک دی۔ پھر میں گاڑی سے اترا اور جو جماعت کے بزرگ تھے ان سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ میرے لیے بھی دعا کریں۔ ایسے ہی کہ دیامیں نے۔

Harf e awwal

جنید جمشید کی شہادت کوایک سال ہوگیا ہےلیکن لگتا ہے وہ آج بھی زندہ ہیں اور ابھی ان کا  فون آئے گا اور ہماری بات ہو رہی ہوگی۔ پورا سال 365 دن کوئی وقت اور کوئی لمحہ بھی  ایسانہیں گزرا   جب ایسا لگا ہوکہ جنید جمشید چلے گئے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان سے  دین کا  بڑا کام لیا ۔ویسے تو ماشااللہ دین کاکام کرنے  میں اللہ نے بہت سارے لوگوں سے بہت کام لئے اورلے رہے ہیں۔ بڑے  بڑےبزرگ ہیں بڑے  اللہ والے ہیں لیکن جنید جمشید ایک منفرد انداز میں آئے اور چلے بھی گئے۔ انہوں نے نوجوان نسل کو جتنامتاثر  کیا ہے اس  کی بہت کم مثالیں ملیں گی ۔

جنید جمشید کی زندگی پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو  کچھ چیزیں واضح طور پرنمایاں نظر آتی ہیں ،لوگوں سے اخلاق اور محبت سے ملنا۔ چاہے وہ امیر ہو، چاہے وہ غریب ہو ،چاہےوہ  ان کا دوست ہوچاہے وہ اجنبی ہو۔ وہ جس سے بھی ملتے تھے ان کا اسٹائل اور تعلق ایسا ہوتا تھا کہ جیسے  وہ بہت پرانے ساتھی ہیں  اور یہی وہ وجہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد  ہر کوئی کہتا ہے کہ وہ میرا دوست تھا ،وہ میرا دوست تھا۔ان سے ملنے اور دیکھنے والے ہزاروں لوگوں کو ایسا لگتا  تھا کہ وہ سب سے زیادہ ان ہی سے پیار کرتا ہے ۔ان کی عجیب شخصیت تھی۔ ان کا اپنا  ایک اسٹائل تھا ۔ان کی ایک آواز تھی اور وہ ایک آواز اتنی اثر انداز تھی کہ اس جیسی  آوازہمیں دور دور تک سننےکو نہیں ملتی۔

Harf e awwal

جنید جمشید۔۔ ایک آواز ایک شخصیت  دردناک سانحے میں ہم سے رخصت ہو گئی۔ وہ شہید ہو کر سرخرو ہو گیا۔ اللہ نے اس کی زندگی قبول کر لی اور موت بھی شہادت کی صورت میں عطا فرمائی۔ جنازہ اتنا طویل و عریض تھا کہ مولانا طارق جمیل کو کہنا پڑا۔ ایسے جنازے تو بادشاہوں کے بھی نہیں دیکھے۔ مجھ سمیت اکثریت کو تو اب تک اس مرگ ناگہاں کا یقین نہیں۔ جب بھی اس کی آواز کانوں میں پڑتی ہے تو لگتا ہے ابھی وہ کہیں سے مسکراتا ہو ا آجائے گا اور کہے گا ۔’’میرے دوستو!  میں کہیں نہیں گیا۔ میں تو یہیں ہوں۔۔‘‘  وہ گیا تو ہزاروں لاکھوں دلوں کو ویران کر گیا۔ دنیا کا ہر کونا اس کی جدائی میں اداس سا دِکھتا ہے۔ اپنے پرائے ہم وطن اجنبی یہاں وہاں  سبھی شاک میں ہیں۔  جب اس کی نعت دل کے تاروں کو چھوتی ہے تواس کے چاہنے والوں کے آنسو نہیں تھمتے۔

بس ایک موتی سی چھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارا شام بن کے آیا، برنگ خواب سحر گیا وہ​

Harf e awwal

بھائی جنید جمشید رحمہ اللہ کے ساتھ ایک بہت دیرینہ تعلق رہا۔ وہ سفر و حضر حج ع عمرہ ملک و بیرون ملک ہمارے ساتھی و رفیق کار رہے۔ اللہ رب العزت نے ان سے مختلف میدانوں میں ان سے کام لیا۔ اللہ رب العزت نے انہیں دوسری قسم کی زندگی سے ہٹا کرہدایت اور پاکیزہ راہ عطا فرمائی۔ وہ اپنی زندگی کے اندر نہایت متواضع، عاجزی اور انکساری کے پیکر تھے۔ ہمیشہ خوش خلقی کے ساتھ پیش آتے۔ تجربہ اس بات کا گواہ ہے جب کبھی کسی بھی بات پر انہیں متنبہ کیا گیا ہمیشہ سر جھکا لیتے اوراپنی غلطی تسلیم کر لیتے تھے۔ عمر میں ہم بڑے ہونے کے باوجودوہ اس طرح ہمارے ساتھ رہتے تھے جیسے ہمارے شاگرد ہوں۔ اکابر علمائے کرام اور  دعوتی ساتھیوں  کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت و محبت ہوا کرتی تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کبھی ا ن کے دشمن کا تذکرہ بھی ان کے سامنے ہوتا تو وہ ان کو بھی معاف کر دیا کرتے تھے۔ اللہ رب العزت نے انہیں  تلاوت ذکر نماز حج و عمرہ اور ارشاد دین کی زندگی عطا کی اور وہ الحمدللہ نہایت کامیا ب اور مسرور ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔

Harf e awwal

’’جنید جمشید شہید سلیم الفطرت شخصیت کے حامل تھے۔ آپ کے معاصرین گواہی دیتے ہیں کہ آپ میں جو نیکی و صلاح جس پیرائے میں نظر آتی تھی، وہ قابل دید دکھائی دیتی تھی۔ وہ جیسے نیکی و تقویٰ کے پیکرتھے۔زندگی کی کایا ایسی پلٹی  کہ اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا محبوب بناکراور پھر  اس دنیا فانی سے شہادت کا اعلی ترین مقام پاکر کوچ فرماگئے۔جس طرح اپنی زندگی میں دوسروں کے لئے آئیڈیل رہے،  دنیا سے رخصت ہونے کے بعدبھی دوسروں کے لئے زندہ مثال بنے۔‘‘ (عائشہ صدیقہ)

’’جنیدبھائی اللہ کےنیک بندے تھےجس سےاللہ نےبہت توڑے وقت میں بہت کام لیااوروہ کامیاب ہوکراپنےمالک حقیقی کےپاس چلےگئے۔‘‘(فاروقی نعمان)

Harf e awwal

’’ معاشرے اور سنت کی جنگ ازل سے چل رہی ہے میرے دوستو! یہ آج کا قصہ نہیں ہے۔ قیامت تک ایسے لوگ آئیں گے جو ہماری رہنمائی کریں گے۔ یہ اللہ کا احسان ہے اس امت پر۔ جو ہمیں بتائیں گے نبی کی زندگی کون سی ہے۔ دل میں تم چاہتے ہو بہاریں آئیں اس کے لیے کس راستے پر چلنا پڑے گا۔یہ وہ لوگ ہمیں بتائیں گے۔   بس کرنا کیا ہے ان کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ ان کو سچا سمجھنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں میں نے اپنی زندگی پر سب سے بڑا حسان یہ کیا...  باوجود اس کے کہ میں گانے والی زندگی میں تھا ... میرا دل اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ یہ جو تبلیغ والے ہیں یہ صحیح لوگ ہیں  ۔ سچے لوگ ہیں۔ مجھے آج تک یاد ہے سولہ سترہ ہزار کا مجمع میرے سامنے ہوتا تھا اور مولانا طارق جمیل باہر گاڑی میں میرا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ جب پروگرام ختم ہوتا تھا۔ اوپر جاتا تھا۔شلوار قمیص پہنتا تھا ۔نہاتا دھوتا تھا اور چھپ چھپا کر ان حضرات کی گاڑی میں بیٹھ جاتا تھا۔

Harf e awwal

اس کی شخصیت میں کچھ عجیب با ت تھی۔گورارنگ ،خوش شکل،درازقد،مردانہ وجاہت نمونہ ۔ان سب سے بڑھ کرانتہائی خوش اخلاق اورملنسار۔ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خوش حال گھرانے کایہ نوجوان اپنی صلاحیتوں سے خود بھی اچھی طرح آشنا تھا۔گھر کی طرف سے مکمل اورخاندان کی اسے ہرطرح کا تعاون میسر تھا۔ وہ اگر تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتا تواعلیٰ پائے کا سائنسدان ، انجینئر،ڈاکٹر کچھ بھی بن سکتاتھا۔فوج یا سول سروسزمیں کوئی اعلیٰ منصب حاصل کرنا بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔مگر اسے شوق تھا عام لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کا۔وہ زندگی کو اس کے تمام مزوں کے ساتھ جیتے ہوئے اونچی اڑان انا چاہتاتھا۔ شایداسی لیے اس کارجحان گلوکاری کی طرف ہوگیا۔یہی رجحان اداکاری کی طرف بھی ہوسکتا تھا۔ ایسا ہوتاتو اس کی وجاہت اوراس کے اسٹائل کے سامنے بڑے بڑے بُت گرجاتے۔مگر شاید طبعی شرافت آڑے آگئی۔

Harf e awwal

امریکی سکالر، شیخ یاسر قاضی:
یہ 1992 کے موسم گرما کی بات ہے۔ میں یونیورسٹی آف ہیوسٹن میں زیر تعلیم تھا جب جنید جمشید اپنے بینڈ وائٹل سائنز کے ساتھ ہمارے کیمپس میں موسیقی پر مشتمل دورہ کرنے آئے۔ سینکڑوں مسلمان طلبا شرکت کے لیے گئے اور جیسا کہ ظاہر ہے وہاں معمول کی موسیقی، رقص اور گانے کا انتظام تھا۔ ہماری مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (جس کا میں ایک  لازمی حصہ تھا!) نے اس تقریب کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور اشتہارات تقسیم کیے جس کا مقصد مسلمانوں کو یہ یاد دہانی کرانا تھا کہ ایسی مجالس میں شرکت کرنا ان کے لیے مناسب نہیں ہے۔جنید کے ہال کے باہر اس 'احتجاج' کا میں بھی حصہ تھا۔
پھر اللہ تعالی نے جنید کو ہدایت دی، انہوں نے موسیقی ترک کر دی اور ایک مبلغ بن گئے۔

Harf e awwal

 ۷ دسمبر 2016 کو جو سانحہ پیش آیا اس سے دل اب تک غمزدہ ہے۔ یقین نہیں آرہا کہ ہم سے ایک اچھا انسان اور ایک بہت ہی اچھا دوست بچھڑ گیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون! اس حادثے میں شہید ہونے والے تمام لوگوں کی اللہ پاک مغفرت فرمائے،اُن کے درجات بلند فرمائے اورلواحقین کو صبر جمیل عطافرمائے۔ پوری قوم غم اور دکھ کی اس گھڑی میں برابر کی شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ سے صبر کی دعا کرتے ہیں اور ان کے ورثاء سے تعزیت کرتے ہیں۔ جنید جمشید  سے میرا تعلق دوستانہ ہی نہیں بلکہ برادرانہ تھا۔ وہ میرے بھائیوں کی طرح تھے۔ سفر اور حضر میں بارہا ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا۔ غیر ملکی اسفار میں بھی ہم ایک ساتھ رہے۔ مختلف محافل اور مجالس میں بھی شریک رہے۔

Harf e awwal

’’سنو بھائی! پاکستان کے بارے میں جتنی بھی بات ہے ناں وہ میں کہوں گا صرف! اور کسی کو اجازت نہیں کیونکہ اگرمیرے سے تعلق رکھنا ہے تو خبردار میرے سامنے پاکستان کی برائی نہ کرنا۔میں چھوڑوں گا نہیں! ہاں! ٹھیک ہے ناں! نہ پاکستا میں نہ پاکستانیوں  کے بارے میں۔ہم جیسے بھی ہیں سو ہیں۔ لوگ اکثر کہتے ہیں پاکستا ن یہ پاکستان وہ، خاص طور پر بدقسمتی سے پاکستان سے باہر رہنے والوں کو تو بہت شوق ہے پاکستان کو ڈسکس کرنے کا۔ اور یہ ڈسکشن کیسے شروع ہوتا ہے۔ ایسے کہ پاکستان کے بارے میں جنید صاحب کچھ بتائیں۔ اور میں کہتا ہوں یا اللہ! اب میں اس کو کیا بولوں۔ میں کہتا ہوں بھائی پاکستا ن کے بارے میں آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہو

Harf e awwal

معروف مذہبی ویب سائٹ درس قرآن ڈاٹ کام کے تحت   شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب ، شیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ ملتان، مولانا زبیر احمد صدیقی،مفتی احمد افنان ،مولانا انس یونس،مفتی زکریا اقبال ، اور ايكس ايکٹر علی افضل،ایاز خان ،انور اقبال اور دیگر حضرات نے تعزیت فرمائی۔  

مولانا زبیر احمد صدیقی:

شیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ ملتان کے مولانا زبیر احمد صدیقی نے تعزیت کرتے ہوئے  درس قرآن ڈاٹ کام کے ناظرین سےکہا پورا پاکستان بالخصوص درس قرآن کے تمام اراکین اور ممبر غمگین و شکستہ خاطر ہیں۔اس لئے کہ پاکستان کے محبوب،محب الوطن،وفادار،عاشق رسول...

Harf e awwal

؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا 
جنید جمشید شہیدکے بارے میں لکھنا بالکل ایسا ہے جیسے کوزے کو سمندر میں بند کرنا۔ جنید جمشید کو اللہ نے ایک پُر سوز آواز اور بلند اخلاق اور باکمال صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ 
تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں
جنید جمشید کی شہادت کی خبر امت مسلمہ کے لیے ایک الم ناک خبر تھی جس کو دل ماننے کو ہر گز تیار نہ تھا مگر یہ ہی وہ لمحہ ہے جہاں ہر شہ بے بس ہوجاتی ہے موت اٹل حقیقت ہے جو ہمارے پیاروں کوہم سے جدا کردیتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے شہداء کو یہ رتبہ دیا ہے کہ شہید مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ 

Harf e awwal

وہ ان سب لوگوں کی دسترس، طعن و تشنیع اور بغض و حسد سے بہت دور اس بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوچکا ہے جہاں اس کے پاس پیش کرنے کے لیے بہت اثاثہ ہے۔ ایسا اثاثہ، ایسی جمع پونجی، جس پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی فخر کرتے ہوں گے۔ جس کی نعتیں لوگوں کے دامن آنسوؤں سے تر کردیں، جو حمد میں اللہ کے سامنے اپنے عجز کا اظہار کرے،گناہوں پر ندامت کا تذکرہ تو لوگوں کی ہچکیاں بندھ جائیں، اسے کس قدر نازو محبت سے عرش والوں نے تھاما ہوگا۔ وہ جو فرش والوں کو اپنے رب سے قریب کرنے کے لیے اس عالم شباب میں وہ سب کچھ چھوڑ کر اللہ کی راہ پر چل نکلا جسے شہرت، دولت اور اس کی دھنوں پر رقص کرتا ہجوم شامل تھا۔ سعدی نے کیا خوب کہا ہےدر جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری استوقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیزگار’’جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے۔

Harf e awwal

نسیم مشکبار بھی کیوں آج سوگوار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
نسیم صبح کہہ گئی دلوں پہ برق پڑ گئی
چراغ تھا جو بجھ گیا وہ انجمن اجڑ گئی
وہ مہوشوں کی ٹولیاں وہ بزم جاں بچھڑ گئی
فسردہ نظم ہی نہیں غزل بھی بے قرار ہے
یہ کون چل بسا یہاں ہر آنکھ اشکبار ہے
یہاں چمن میں بلبلیں تڑپ رہی ہیں دیکھ لو
ہیں تتلیاں بھی دم بخود بجھی کلی ہیں دیکھ لو
غموں سے چورچور قطرے شبنمی بھی دیکھ لو

Harf e awwal

کچھ لوگ ہماری زندگی میں اتنے اہم ہوتے ہیں جن کے بغیر رہنا دشوار لگتا ہے۔وہ جتنے بظاہر خوبصورت ہوتے ہیں اس سے زیادہ انکا باطن خوبصورت ہوتا ہے ۔جن کی زندگی سب کےلئے ایک مثال ہوتی ہے۔اور موت قابل رشک جو مرنے کے بعد ہمیشہ کےلئے امر ہوجاتے ہیں۔ ان کی یادیں خوشبو بن کر ہمارے ارد گرد انکے پاس ہونے کا ثبوت دیتی ہیں ۔آج میں اپنے جذبات قاریات سے جن کے لئے بیان کررہی ہوں وہ ہیں محترم جنید جمشید شہید رحمہ اللہ جنھیں ہر دلعزیزشخصیت کے نام سے آج جانا جاتا ہے۔

قلم سے رشتہ تو بہت پرانا ہے۔ وقتا فوقتاڈائری میں لکھتی رہتی ہوں مگر کسی رسالےکےلیےہمت نہیں ہوئی۔ لیکن حقیقتاً جنیدجمشید کی اچانک موت نےمجھےجھنجھوڑ ڈالا۔ 7دسمبر 2016عصرکےوقت گھرکی صفائی کرتےہوئےدل کی دھڑکن بہت تیزہوگئی۔ سوچنےلگی مغرب کےبعدسورہ رحمن کی تلاوت کرونگی تاکہ سکون مل جائے لیکن یہ کیا؟مغرب کےوقت موبائل پر پیغام آیا۔’’جنیدبھائی چترال گئے ہوئے تھے تبلیغ کے سلسلے میں واپسی میں طیارہ حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگیا۔‘‘

Harf e awwal

شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (سورہ النساء ۔ 69)

تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔

شہداء زندہ ہیں:

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ (سورہ البقرہ ۔ 154 )
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔

Harf e awwal

آسمان پر بے شمار ستارے ہیں۔کچھ بڑے کچھ چھوٹے۔ ہم مگر انہی کوجانتے ہیں جن کی چمک ہماری زندگی اور ہمارے ادراک تک پہنچ پاتی ہے۔ انسانوں کا حال بھی یہی ہے۔ جن کے احوال ہم جان لیتے ہیں اور جو ہمارے احوال تک پہنچ پاتے ہیں، وہی ہماری یاد اور ہماری زندگی کاحصہ بن پاتے ہیں۔ جنید جمشید ا س کی تازہ مثال ہے۔ لوگوں نے کہا پی کے 661 میں موت کے سفر پر نکلے کل 42 مسافر تھے اور باقی 5جان ہارنے نکلے لوگ جہاز کے عملے پر مشتمل تھے۔ 2 فضائی میزبان، ایک پائلٹ، ایک اس کا معاون اور ایک فرسٹ آفیسر۔

Harf e awwal

اہلِ ھویٰ تھے جن سے ہراساں کہاں گئے
رشکِ جبال صاحبِ ایماں کہاں گئے
مردے بھی زندہ ہو گئے جن کی صداؤں سے
وہ اہلِ سوز و ساز ھُدی خواں کہاں گئے
تاریکیوں سے جنگ رہا جن کا مشغلہ
تھے جو زمیں پہ مہر بداماں کہاں گئے
دنیا بغیر ان کے بیاباں سے کم نہیں
جانِ چمن وہ رشکِ گلستاں کہاں گئے