Kahanian2

 زندگی کے کسی نہ کسی  موڑ پر  اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔  کچھ ایسے ہی الفاظ لیے یہ انمول کہانیاں  اس Category   میں پیشِ خدمت ہیں۔ 


arrownew e0کافی عرصہ کی بات ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت نبیﷺ  کانفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا۔

چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو (جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔

اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم  کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ہوا۔

یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا۔ 

کانفرنس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کی.

arrownew e0ڈاکٹر نے مجھے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹس بتائیں تو مجھے دھچکا لگا۔ جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔ مجھے لاسٹ سٹیج کا کینسر تھا۔
گھر آتے آتے میں سوچتا رہا۔ بیوی کو کیسے بتاوں گا۔ بچوں کو کیا کہوں گا۔ گھر پہنچ کر میں نے سیف میں سب رپورٹس چھپا دیں۔ بیوی پوچھتی رہی میں نے کچھ بتا کہ کر نہ دیا۔ سب نارمل ہے کہ ٹال دیا۔
رات کھانے کے بعد واک کرنے نکلا تو دل بند سا ہونے لگا۔ کس کا دل کرتا ہو گا یہ چمکتی دمکتی روشنیاں یہ چہل پہل یہ ہنسی قہقہے چھوڑ کر جانے کا۔ پیاری بیوی پیارے پیارے بچے چھوڑ کر کیسے جاوں گا۔ ایک لمبی پتلی سی اندھیری قبر میں کیسے رہوں گا۔
میں چلتا رہا اور سوچتا رہا حتی کہ قبرستان آ گیا۔ قبروں کے کتبے جیسے مجھے بلانے لگے۔ میں بیچ کے اونچے نیچے راستے پر چلنے لگا۔ قبریں خاموش تھیں لیکن کیا ان کے اندر واقعی خاموشی تھی؟
ایسا سناٹا پہلے دیکھا ہوتا تو خوف سے میری جان نکل جاتی۔ لیکن آج دل بے خوف سا تھا بلکہ ان چپ چاپ پڑے مکینوں سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔
کچھ چھوٹی کچھ بڑی قبریں۔

arrownew e0دروازے پر آہستہ انداز میں دستک ہوئی․․․زکریا نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا․․․وہ اس وقت اپنے گھر کے صحن میں تھا۔گھر کے باقی افراد اندرونی حصے میں تھے․․․․آہستہ دستک دینے کا مطلب تھا،آنے والا نہیں چاہتا کہ اس کے آنے کی کسی کو خبر ہو۔
وہ دبے پاؤں اٹھا اور کچھ بولے بغیر دروازہ کھول دیا․․․باہر زابل کے والد کھڑے تھے․․․اس نے انہیں وہیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور اندر آکر ڈرائینگ روم کا دروازہ کھول دیا․․․دوسرے ہی لمحے زابل کے والد توقیر اندر آگئے․․․انہوں نے دبی آواز میں کہا:
”السلام علیکم بیٹا زکریا۔‘‘
’’وعلیکم السلام رحمتہ اللہ وبرکاتہُ․․․ چچا جان!میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا۔مجھے آپ کا موبائل پر پیغام مل گیا تھا۔“
”شکریہ!اصل میں تمہیں تو پتا ہے․․بیٹا․․․زابل کا تمہارے بڑے دونوں بھائیوں سے کس قدر گہرانہ دوستانہ ہے․․․ہے ناں۔“

اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ سر سلیم اسے ڈانٹ رہے تھے۔
”آخر کب سمجھو گئے تم؟ اب تم کوئی بچے نہیں رہے آٹھویں جماعت میں پڑھ رہے ہو۔ میں تو تنگ آگیا ہوں تم سے۔ پڑھتے نہیں تو اسکول کس لئے آتے ہو؟“
اس کا سرشرم سے جھکا ہوا تھا۔

سر سلیم نے پھر کہا:”چلو جاو یہاں سے۔ اگر آئندہ ٹیسٹ میں تمھارے نمبرکم آئے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ سمجھے؟“
پھر وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
”امجد! میں نے تمھیں کل ہی سمجھایا تھا کہ سبق یاد کرکے آنا، لیکن تم سنتے ہی نہیں۔

ام امینہ بدریہ کی ایمان افروز داستان قبول اسلام انہی کی زبانی سنیے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے والد کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا۔ وہ پیدائشی لحاظ سے مسلمان تھے لیکن عملی طور پر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جبکہ میری والدہ بدھ مت تھیں اور والد صاحب سے شادی کے وقت مسلمان ہوئی تھیں۔ وہ دونوں بعدمیں آسٹریلیا آ کر آباد ہو گئے تھے۔ میرا پیدائشی نام ( ٹے نی تھیا ) Tanidthea تھا۔ میں نے یونیورسٹی آف نیوانگلینڈ، آرمیڈیل سے ایم اے اکنامکس کیا اور بزنس مارکیٹنگ اور ہیومن ریسورسز کے مضامین پڑھے۔ پھر میں بطور ٹیوٹر پڑھانے لگی۔ اسی اثناءمیں شادی ہو گئی شادی اسلامی قانون کے مطابق ہوئی۔ میرے شوہر کمپیوٹر گرافکس ڈیزائنر تھے۔ وہ شادی کے وقت مسلمان ہوئے تھے لیکن نام کے مسلمان تھے۔ اسلام پر ہرگز عامل نہیں تھے۔
میرے باپ بھی نام کے مسلمان تھے اور انہیں دین کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا نہ انہوں نے ہمیں کچھ بتایا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم بھی دین سے مکمل طور پر عاری تھے۔ میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں ملحد تھی۔ میں جب اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزار چکی تو ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ دنیا سے میرا دل اچاٹ ہو گیا اور میں پریشانی کی حالت میں تھی۔

وہ سخت گرمیوں کی ایک شام تھی بی گلہری کا گھر بوڑھے برگد میں تھا اور اس کے تمام ننھے منے بچے اپنے سونے والے کمرے میں موجود تھے، اگرچہ اُن کے سونے کا وقت کب کا ہوچکا تھا لیکن وہ ابھی تک جاگ رہے تھے۔

نمو بی گلہری کا سب سے چھوٹا بچہ تھا وہ اپنے بستر پر اچھل کود رہا تھا۔ وہ کہنے لگا” مجھے نیند بالکل نہیںآ رہی ہے۔ ابھی باہر تھوڑی روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ میں تو ابھی کھیلنا چاہتا ہوں“ دوسروں نے منہ پر انگلی رکھ کر اُسے چپ رہنے کو کہا اور سرگوشی سے اُسے کہنے لگے”اتنا اونچا نہ بولو ورنہ اماں سن لیں گی تو ہم سب مشکل میں پڑجائیں گے“ لیکن نمونے اُن کی نصیحت پر کان دھرنے کی بجائے ہنسنا شروع کردیا اور زور سے بستر پر اُچھلنا کودنا شروع کردیا ۔

ﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﭘﯽ ﺍﮮ ﻧﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﺩﯼ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﺍٓﭖ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻼﻟﯿﺎ۔ﻣﻼﻗﺎﺗﯽ ﺍﯾﮏ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮﮈ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ’’ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﺳﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﺲ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻧﻔﺎﺭﻣﯿﺸﻦ ﺳﺮﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﺍٓﯾﺎ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﻣﯿﺪﯾﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﺎ ﺑﮍﮬﺎﭘﺎ ﺍٓﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺟﺎﺋﯿﮕﺎ،ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﻠﯿﭧ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺭﺍﻭﻟﭙﻨﮉﯼ ﺍٓﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﻭﮦ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮈﯾﭙﻮﭨﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍٓﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺒﺎﺩﻟﮧ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻻﮨﻮﺭ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﮨﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ؟ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﮯ ‘‘ ۔ ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺍٓﮔﺌﯽ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﻓﺴﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺍٓﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﻨﺎﺀ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻻﮨﻮﺭ ﺗﻌﯿﻨﺎﺗﯽ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﺻﺎﺣﺐ ‏( ﻣﻼﻗﺎﺗﯽ ‏) ﮐﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ؟ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞﺎﺳﮯ ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺍٓﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﯿﮟ ‘‘ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺍٓﭘﮑﯽ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﻼﻡ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺗﻌﯿﻨﺎﺕ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺗﺒﺎﺩﻟﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺳﻔﺎﺭﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ ۔ ﻣﻼﺯﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﺑﺎﺭ ﺗﺒﺎﺩﻟﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺳﮑﺘﮯ۔