butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک پینگوئن پنگو کی جو اپنے امی ابو کے ساتھ تھا۔پنگو کی چونچ سرمئی ، پر کالے، پاؤں زرد اور باقی سارا جسم سفید تھا۔ ہاں ناں  بچو ! یہ  ایک بہت ہی پیارا پینگوئن تھا!  پنگو پینگوئین کا گھر برف سے بنا ہوا تھا۔ یہ گھر اس کے امی ابو نے مل کر بنایا تھا۔

ایک دن پنگو  اکیلےکھیل کھیل کر تنگ آ گیا۔ اس نے کہا۔

’’امی جان! مجھے نانو کے گھر جانا ہے۔ میں وہاں پونی کے ساتھ کھیلوں گا۔‘‘

پونی پنگو کے ماموں کی بیٹی تھی۔ امی جان نے سنا تو کہنے لگیں۔

’’ٹھیک ہے۔ تم اپنا بیگ تیار کر لو۔ ہم کل ہی چلتے ہیں۔‘‘

اگلی صبح امی جان نے کچھ تازہ مچھلیاں پکڑیں، انہیں ایک ٹفن میں رکھا اورپنگو کا ہاتھ پکڑ کر چل دیں۔راستے میں پنگو پلان بناتا  رہاکہ پونی سے کیا کیا کھیلنا ہے۔ جب اسے دور سے نانو کا گھر نظر آیا تو اس نے ایک چھلانگ لگائی اور دور تک برف پر پھسلتا گیا۔

میرے سوہنے موہنے بچو! عاکف میاں نےکچھ دن پہلے ہی ایک نئی عادت بنا لی تھی۔ وہ تھی ہر ایک کی نقل اتارنا۔ کبھی وہ بھائی جان کی نقل اتارتے کبھی بڑی آپا کی اور پھر خوب ہنستے۔ اس دن بھی جب بھائی جان کمرے سے نکلے اور امی جان سے بولے۔

’’امی جان! میری شرٹ نہیں مل رہی۔کیا آپ نے کہیں رکھی ہے؟‘‘

تو اس سے پہلے کہ امی جان کچھ کہتیں ، عاکف میاں بول پڑے۔

’’میری شرٹ نہیں مل رہی۔۔ میری شرٹ نہیں مل رہی ۔۔ ہی ہی ہی!‘‘

امی جان نے عاکف میاں کو گھورا تو وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر باہر بھاگ گئے۔

ناشتے کی میز پر آپا جان کہنے لگیں۔

رابی گڑیا آج بہت خوش تھیں ۔ہوا کچھ یوں کہ آج انہوں نے ماما کو ٹافیاں رکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔رابی کو ٹافیاں بہت ہی پسند ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ  ماما انہیں روزانہ صرف ایک ہی ٹافی کھانے کو  دیتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا ۔

’’اچھے بچے زیادہ ٹافیاں نہیں کھاتے۔ دانت خرا ب ہو جاتے ہیں ،کیڑا لگ جاتا ہے۔‘‘

لیکن رابی کا دل تو د س ٹافیاں کھانے کو چاہتا تھا۔

سوآج جب رابی کو پتہ چلا کے ماما نے اپنے  بیگ میں ٹافیاں رکھی ہیں تو وہ بہت خوش ہوئی ۔

شام کو جب سب باہر لان میں بیٹھے تھے تورابی گڑیاکمرے میں آئیں اور الماری کے ہینڈل سے  لٹک کر ماما کا بیگ نکال لیا۔

میرے سوہنے موہنے بچو! کچھ دنوں سے جنگل میں بہت ہی عجیب بات ہو رہی تھی۔ وہ یہ کہ سب جانور بس اپنا اپنا گھر صاف کرنے لگے تھے اور جو بھی کوڑا کرکٹ ان کے گھر سےنکلتا وہ درختوں اور بڑے پتھروں کے پیچھے پھینک دیتے۔ اس دن بھی ایک شرارتی بندر جس کانام بھورو تھا ، نے کیلا کھا کر چھلکا تالاب میں پھینک دیا۔ اس تالاب میں ایک بہت اچھا اور کسی کو تنگ نہ کرنے والا مگر مچھ بھی رہتا تھا۔ مگر مچھ  نے جب تالاب میں کیلے کا چھلکا تیرتا ہوا دیکھا تو بھورو کو ڈانٹا۔

’’بھورو! تمھاری شرارتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ میں تمھاری شکایت تمھارے ابا سے لگاؤں گا۔‘‘

’’اہو!سوری مگر مچھ انکل! اب میں چھلکے نہیں پھینکوں گا۔‘‘ بھورو نے فورا معافی مانگ لی  نیچے اتر کر چھلکے اٹھا لیے۔ کیونکہ اگر مگر مچھ انکل اس کی شکایت اس کے ابا سے کر دیتے تو اس کو بہت ڈانٹ پڑتی۔

خیر! ایک دن بھورو نے کافی سارے فروٹ کھائے۔ ایک چھوٹا سیب،  دو کیلے اور ایک انار۔ پھر اس نے سوچا چھلکے کہاں پھینکوں۔ ابھی بھورو  درخت کے نیچے کھڑا یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اوپر سے اس کے سر پر کوئی چیز آگری۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک پیاری سی بکری شبو کی جو جنگل کے آخری کونے میں مالٹے کے درخت کے نیچے رہتی تھی۔ شبو کا گھر بہت پیارا تھا اور کچن تو اس سے بھی پیارا! صاف ستھرا اور دھلے دھلائے برتن۔ چولہے پر پڑی ہنڈیا اور اس میں سے آتی مزیدار خوشبو۔ شبو صبح سویرے اپنے گھر کی صفائی کرتی پھر مزیدار کھانا بناتی۔

ایک دن کیا ہوا! ہوا یہ کہ اس دن شبو نے ابھی گھر کی صفائی  شروع ہی کی تھی  کہ ڈاکیا بندر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

’’کھٹ کھٹ کھٹ!  شبو بہن! آپ کے لیے خط آیا ہے۔‘‘

’’ہائیں! میرے لیے خط! اوہ ہاں! بینا آنٹی کا ہو گا۔ ضرور وہ میرے گھر رہنے آرہی ہوں گی۔‘‘ شبو نے سوچا اور ڈاکیہ سے خط لے کر اندر آ گئی۔ جب اس نے خط کھول کر دیکھا تو لکھا تھا۔

میرے سوہنے موہنے بچو!  یہ کہانی ہے اس وقت کی جب راجو کے تالاب میں ایک نیادوست آ گیا تھا۔ راجو ایک پیارا سا راج ہنس تھا۔ سفید پروں اور نارنجی چونچ والا۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ تالاب کے کنارے رہتا تھا۔ مزے سے کھاتا پیتا اور تالاب کے پانی سے کھیلتا رہتا۔ ایک دن تالاب میں ایک نیا راج ہنس آیا۔ اس کا نام شانو تھا۔

شانو کے پر کالے اور گردن مٹیالی سی تھی۔ اس کی چونچ بھی سرمئی تھی اور وہ راجو کے جیسا بالکل بھی نہیں تھا۔ اس لیے راجو  کو وہ اچھا نہیں لگا۔

ایک دن راجو نے کہا۔’’امی جان! مجھے شانو اچھا نہیں لگتا۔ وہ کالے رنگ  کا ہے۔‘‘

امی جان بولیں۔’’نہیں بیٹا! ایسے نہیں کہتے۔ شانو تو بہت اچھا راج ہنس ہے۔ دیکھو تو وہ ہمارے ساتھ کتنی اچھی طرح رہتا ہے۔ ‘‘

لیکن راجو نے دل ہی دل میں سوچا۔ ہونہہ! میں تو راجو کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔ یہ نہ ہو کہ میرے پر بھی کالے ہو جائیں۔

میرے سوہنے موہنے بچو! جنگل میں سردی بڑھ  گئی تھی۔ سب جانوراب زیادہ تر اپنے اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ اس دن بھی بنٹی بھالو کی امی جان نے  دوپہر کو گھر کا دروازہ بندکیا اور کچھ دیر آرام کے لیے لیٹ گئیں۔

بنٹی بھالو بھی اپنے کمرے میں سونے کے لیے لیٹے ہوئے تھے۔ اچانک اسے ایک آواز آئی۔

’’کرچ کرچ! ہمم! بڑے مزیدار ! کرچ کرچ کرچ!‘‘

بنٹی بھالو جلدی سے اٹھ گئے۔ پھر انہوں نے صحن میں آ کر دیکھا۔ درخت کے اوپر بی گلہری کچھ کھا رہی تھی۔